میں اپنے آپ سے شرما رہا ہوں
یہ کس دنیا میں چلتا جا رہا ہوں
امیدوں کے بجھا کر سب دئیے میں
ذرا مایوس ہونے جا رہا ہوں
تساہل کی بھی کوئی حد ہے یارو
میں جل سے برف ہوتا جا رہا ہوں
کھرا پہلے بھی کچھ ایسا نہیں تھا
میں کھوٹا اور ہوتا جا رہا ہوں
جو تو دائیں کو جھکتا جا رہا ہے
میں بائیں کی طرف کو جا رہا ہوں
نظر سے میں نظارہ ہو گیا ہوں
تھا چشم نم مگر پتھرا رہا ہوں
صدائے کن پہ تکیہ کر رہا ہوں
عمل سے دور ہوتا جا رہا ہوں
ظفر اقبال
بلجرشی الباحہ سعودی عرب